ریاض ندیم نیازی ۔۔۔ روشنی ہے ، رتجگے ہیں آئنوں کے شہر میں

روشنی ہے ، رتجگے ہیں آئنوں کے شہر میں
آپ جب سے آگئے ہیں آئنوں کے شہر میں

چشمِ حیرت سے ہمیں بھی تک رہے ہیں شیشہ گر
ہم بھی جیسے آئنے ہیں آئنوں کے شہر میں

بٹ گئے ہیں بس گروہوں میں سبھی اہلِ نظر
دائرے ہی دائرے ہیں آئنوں کے شہر میں

اہلِ عرفاں سے کہو، اِس کی وضاحت کر سکیں
ہم بُرے ہیں یا بھلے ہیں آئنوں کے شہر میں

دیکھتے ہی دیکھتے پتھر ہوئے ہیں آئنے
آئنے پتھر ہوئے ہیں آئنوں کے شہر میں

آئنوں کو کر دیا کس نے مکدّر دوستو
چار سو پتھر سجے ہیں آئنوں کے شہر میں

پتھروں سے اِن کی نسبت ہو نہیں سکتی کبھی
آئنے پھر آئنے ہیں آئنوں کے شہر میں

ہیں مثالِ آئنہ اِس شہر میں کچھ اور لوگ
ہم تمھی کو ڈھونڈتے ہیں آئنوں کے شہر میں

ریزہ ریزہ دیکھیے اب کون چُنتا ہے ندیمؔ
جا بجا بکھرے پڑے ہیں آئنوں کے شہر میں

Related posts

Leave a Comment